افطار صائم – روزہ دار کو افطار کرانے کی فضیلت اور حکمت
“افطار صائم” یعنی روزہ دار کو افطار کرانا ایک ایسی نیکی ہے جس کا اجر دنیا اور آخرت دونوں میں بے شمار ہے۔ رمضان المبارک کا مہینہ عبادت، صبر، تقویٰ، اور رحمت کا مہینہ ہے، جس میں اللہ تعالیٰ بندوں کے معمولی اعمال کو بھی عظیم جزا کے ساتھ قبول فرماتا ہے۔ اسی مہینے میں روزے رکھے جاتے ہیں اور شام کو افطار کے وقت روحانی سکون اور خوشی کی لہر دل میں دوڑتی ہے۔
افطار صائم کا مفہوم
لفظی طور پر “افطار صائم” کا مطلب ہے “روزہ دار کو روزہ کھلوانا”۔ اسلامی تعلیمات کے مطابق جو شخص کسی روزہ دار کو افطار کراتا ہے، اسے بھی ویسا ہی ثواب ملتا ہے جیسا روزہ رکھنے والے کو، بغیر اس کے کہ روزے دار کے ثواب میں کوئی کمی ہو۔
احادیث نبوی ﷺ میں افطار کرانے کی اہمیت
نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
“من فطر صائماً کان له مثل أجره، غير أنه لا ينقص من أجر الصائم شيء”
(ترمذی)
یعنی: “جس نے کسی روزہ دار کو افطار کرایا، اسے بھی روزہ دار کے برابر اجر ملے گا، بغیر اس کے کہ روزہ دار کے اجر میں کوئی کمی ہو۔”
یہ حدیث واضح کرتی ہے کہ افطار صرف ایک کھانے کا عمل نہیں بلکہ ایک عظیم نیکی ہے۔ اس سے محبت، اخوت، ایثار اور اللہ کی رضا کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔

افطار صائم کے عملی فوائد
1. روزہ دار کی دعائیں
جب انسان کسی روزہ دار کو افطار کرواتا ہے، تو وہ اس کے لیے دل سے دعائیں کرتا ہے۔ یہ دعائیں قبولیت کے وقت میں ہوتی ہیں کیونکہ افطار کے وقت دعاؤں کی قبولیت کا خاص وقت مانا جاتا ہے۔
2. روحانی تعلق اور بھائی چارہ
افطار صائم کے عمل سے انسان دوسروں کے ساتھ روحانی رشتہ قائم کرتا ہے۔ یہ ایک ایسا لمحہ ہوتا ہے جب سب روزہ دار مل کر ایک ساتھ اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں۔ یہ امت مسلمہ کی اجتماعیت اور بھائی چارے کا مظہر ہوتا ہے۔
3. غریبوں کی مدد
افطار کرانے کا سب سے بہترین ذریعہ صدقہ اور خیرات ہے۔ بہت سے لوگ روزانہ کی بنیاد پر افطاری کے پیکٹس تقسیم کرتے ہیں، جس سے معاشرے کے محتاج اور یتیم بھی اس نعمت سے مستفید ہوتے ہیں۔
افطار کرانے کا صحیح طریقہ
اسلام میں افطار کے وقت سادگی کو پسند کیا گیا ہے۔ نبی ﷺ نے کھجور یا پانی سے افطار کیا۔ ہمیں بھی چاہیے کہ ہم سنت کے مطابق افطار کرائیں، فضول خرچی اور دکھاوے سے پرہیز کریں۔
سنت کے مطابق افطار:
-
کھجور سے افطار کرنا
-
اگر کھجور نہ ہو تو پانی سے
-
بسم اللہ کے ساتھ
-
دعائے افطار:
“اللهم إني لك صمت، وبك آمنت، وعليك توكلت، وعلى رزقك أفطرت”
افطار صائم کے جدید تقاضے
آج کے دور میں افطار صائم کا عمل صرف مساجد یا گھروں تک محدود نہیں رہا۔ مختلف فلاحی ادارے، اسلامی تنظیمیں اور حتیٰ کہ انفرادی افراد بھی افطار ڈرائیوز چلا رہے ہیں۔ سوشل میڈیا کے ذریعے بھی افطاری کے لیے donation campaigns چلائی جاتی ہیں۔
یہ سب اقدامات اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ انسانیت کی خدمت کا جذبہ زندہ ہے اور یہ اسلامی تعلیمات کی روح کے عین مطابق ہے۔
افطار صائم میں نیت اور اخلاص
سب سے اہم بات یہ ہے کہ جب آپ کسی روزہ دار کو افطار کراتے ہیں، تو آپ کی نیت اللہ کی رضا ہو۔ اگر نیت میں ریاکاری ہو تو عمل کا اجر ختم ہو جاتا ہے۔ افطاری کے وقت کسی کو صرف ایک کھجور یا ایک گھونٹ پانی دینا بھی اخلاص سے کیا جائے تو عظیم ثواب کا باعث بنتا ہے۔
افطار کے بعد کی عبادت اور تقویٰ
افطاری کے بعد بھی غفلت نہیں ہونی چاہیے۔ رمضان کا ہر لمحہ عبادت کے لیے قیمتی ہے۔ افطاری کے بعد نماز مغرب، تراویح اور قرآن کی تلاوت پر توجہ دینا چاہیے۔ اسی طرح دل میں شکر اور تقویٰ پیدا ہو تاکہ رمضان کی برکات مکمل حاصل ہوں۔
افطار صائم: ایک مستند عمل
افطار صائم ایک ایسا عمل ہے جو:
-
نبی ﷺ کی سنت پر عمل ہے
-
اجتماعی خیر کا ذریعہ ہے
-
غرباء کی مدد کی صورت ہے
-
نیکی کے پھیلاؤ کا سبب ہے
-
دلی سکون اور ثواب کا ذریعہ ہے
افطار صائم میں ہماری ذمہ داریاں
ہمیں چاہیے کہ رمضان کے مہینے میں:
-
اپنے گھر، محلے یا علاقے میں افطار کے انتظامات کریں
-
کسی غریب یا محتاج کو افطار کروانے کا عزم کریں
-
بچوں کو بھی نیکی کے اس عمل میں شریک کریں
-
اپنی نیت خالص رکھیں اور اخلاص سے افطار کرائیں
نتیجہ
“افطار صائم” صرف ایک عمل نہیں بلکہ ایک روحانی، سماجی اور اخلاقی فریضہ ہے جو ہمیں اللہ کے قریب کرتا ہے، امت کے ساتھ جوڑتا ہے اور نیکی کے دروازے کھولتا ہے۔ آئیں ہم سب اس رمضان میں یہ عزم کریں کہ ہم زیادہ سے زیادہ روزہ داروں کو افطار کروائیں، ان کے دعا کے حق دار بنیں اور اپنے لیے آخرت کا زاد راہ تیار کریں